پیر 10 نومبر 2025 - 05:23
تاریخِ نسواں| علامہ طباطبائیؒ کی نظر میں عورت کی تحقیر کا تاریخی پس منظر

حوزہ/ اسلامی قوانین انسانی تجربات پر مبنی نہیں بلکہ انسان کی حقیقی مصلحتوں اور مفاسد پر استوار ہیں۔ ان قوانین کی قدر و قیمت سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم گزشتہ اور موجودہ قوموں کے حالات کا جائزہ لیں تاکہ اسلام کی برتری واضح ہو جائے۔ اسی بنا پر اسلام میں عورت کی شناخت، قدر و منزلت، حقوق اور سماجی مقام کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تفسیرِ المیزان کے مؤلف، مرحوم علامہ طباطبائیؒ نے سورۂ بقرہ کی آیات ۲۲۸ سے ۲۴۲ کے ذیل میں، اسلام اور دیگر اقوام و مذاہب کے نقطۂ نظر سے عورت کے حقوق، شخصیت اور سماجی مقام پر تفصیلی بحث کی ہے۔ ذیل میں اسی موضوع کا پہلا حصہ پیش کیا جا رہا ہے۔

الٰہی قانون کی بنیاد:

چونکہ اسلام کا قانون بنانے والا خود خداوندِ متعال ہے، اس لیے یہ قوانین انسانی تجربات پر مبنی نہیں ہوتے کہ پہلے نافذ کیے جائیں، پھر ان میں خامی نظر آئے تو منسوخ کر دیے جائیں۔

اسلامی قوانین کی بنیاد انسانی مصالح اور مفاسد کی حقیقی شناخت پر ہے، اور چونکہ خدا ہی ان حقائق سے مکمل طور پر آگاہ ہے، اس لیے اس کے احکام ہمیشہ کامل اور دائمی ہیں۔

تاہم، چونکہ اشیاء کی حقیقت ان کے متضاد امور سے پہچانی جاتی ہے، اس لیے الٰہی قوانین کی قدر و قیمت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم دوسری قوموں کے رسم و رواج، قوانین اور نظریات پر بھی نظر ڈالیں۔ ساتھ ہی یہ بھی دیکھیں کہ انسانی سعادت اور کامیابی دراصل کن بنیادوں پر قائم ہے۔

پھر جب ہم ان دونوں پہلوؤں "یعنی انسانی تجربات اور خدائی ہدایت" کا موازنہ کریں گے، تو اسلام کے قانون کی روحِ زندہ ہمیں دیگر مذاہب اور اقوام کے نظاموں کے درمیان نمایاں نظر آئے گی۔

تاریخِ اقوام اور ان کے تمدن کا مطالعہ بھی اسی لیے ضروری ہے کہ ہمیں اسلامی تعلیمات کی برتری اور حقیقت کا ادراک ہو جائے، نہ یہ کہ ہم ان قوموں سے کوئی بہتر قانون تلاش کرنا چاہتے ہیں۔

بحث کے بنیادی نکات:

علامہ طباطبائیؒ اس موضوع کو چار زاویوں سے زیرِ بحث لاتے ہیں:

۱. اسلام میں عورت کی ہویت اور حقیقت کیا ہے، اور یہ مرد کے ساتھ کس حد تک مشابہ یا مختلف ہے؟

۲. عورت کا سماجی مقام اسلام کی نظر میں کیا ہے اور اس کا انسانی زندگی میں کیا کردار ہے؟

۳. اسلام نے عورت کے لیے کون سے حقوق اور احکام مقرر کیے ہیں؟

۴. ان قوانین کی تشریع اور بنیاد کن اصولوں پر قائم ہے؟

علامہؒ لکھتے ہیں کہ ان مباحث کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلام سے پہلے کی اقوام کی تاریخ کا جائزہ لیں، اور دیکھیں کہ مختلف قومیں — خواہ وہ ترقی یافتہ ہوں یا پسماندہ — عورت کے ساتھ کیا برتاؤ کرتی تھیں۔

عورت کی حالت پسماندہ اقوام میں:

قدیم اور وحشی اقوام، جیسے کہ افریقہ، آسٹریلیا، جزائرِ اوقیانوس، قدیم امریکہ اور اسی طرح کے دیگر قبائل میں، عورت کی زندگی مردوں کے مقابلے میں پالتو جانوروں سے کچھ مختلف نہ تھی۔

مرد ان کے ساتھ وہی سلوک کرتے تھے جو اپنے مویشیوں کے ساتھ کرتے ہیں۔

انسان اپنی طبیعتِ استعماری و استثماری کے باعث خود کو یہ حق دار سمجھتا تھا کہ جیسے وہ گائے، اونٹ، گھوڑے اور بکریوں کا مالک ہے، ویسے ہی عورت کا بھی مالک ہو۔

وہ جس طرح اپنے جانوروں سے مختلف فائدے حاصل کرتا تھا "مثلاً ان کے بال، دودھ، گوشت، ہڈیاں، چمڑا وغیرہ" اسی طرح عورت کو بھی ایک ذریعۂ نفع و خدمت سمجھا جاتا تھا۔ وہ جانوروں کے لیے طویلہ بناتا، ان کی نسل بڑھانے کے لیے نر و مادہ کو جمع کرتا، ان سے باربرداری، کھیتی باڑی، شکار اور دیگر کام لیتا۔

یہ تمام حیوانات صرف اتنی ہی سہولتوں سے بہرہ مند ہوتے جتنی ان کے مالک کی مصلحت میں رکاوٹ نہ بنتی۔اسی طرح عورت بھی مرد کی زندگی کا ایک تابع عنصر سمجھی جاتی تھی، نہ کہ ایک خودمختار اور باعزت انسان۔

حیوانات کے ساتھ برتاؤ:

علامہؒ مزید فرماتے ہیں کہ ان پسماندہ معاشروں میں انسان کا طرزِ عمل حیوانات کے حق میں اتنا ظالمانہ تھا کہ اگر ان جانوروں کو زبان دی جاتی تو وہ اپنے مالکوں کے ظلم و ستم پر چیخ اٹھتے۔

بہت سے حیوانات بغیر کسی جرم کے مظلوم ٹھہرتے، اور آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ کوئی ان کی داد رسی کرنے والا نہیں ہوتا۔

کبھی ایک جانور محض خوبصورت ہونے کی وجہ سے شاہانہ زندگی گزارتا ہے، محلات میں رہتا اور اعلیٰ خوراک پاتا ہے، جب کہ کوئی دوسرا جانور، مثلاً گدھا یا خچّر، پوری عمر مشقت میں گزارتا ہے۔

یہ جانور کسی ذاتی حق کے مالک نہیں ہوتے؛ ان کی تمام زندگی مالک کی خواہشات پر منحصر ہوتی ہے۔

اگر کوئی شخص کسی کا جانور زخمی کر دے، تو اس لیے سزا نہیں پاتا کہ اس نے ایک مخلوق پر ظلم کیا، بلکہ اس لیے کہ اس نے مالک کا مالی نقصان کیا ہے۔

یہی تصور انسان کے ذہن میں راسخ تھا کہ حیوانات اور عورت دونوں کی زندگی انسان کی زندگی کے تابع ہے، اور ان کی کوئی مستقل حیثیت نہیں۔

(جاری ہے...)

(منبع: ترجمہ تفسیر المیزان، جلد دوم، صفحہ ۳۹۵)

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha